جمعہ، 17 جولائی، 2020

ریاست مدینہ اورمندر

گزشتہ چند دنوں سےجس خبر نے ملک کی سیاسی فضا اور مذہبی وعوامی حلقوں میں ہلچل مچا رکھی ہے وہ ہے اسلام آباد میں حکومت کی جانب سے مندر کی تعمیرکا سنگ بنیاد رکھا جانا۔

ریاست پاکستان کے آئین و قانون میں اقلیتوں کے حقوق اور ان کی عبادت گاہوں کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے لیکن حال ہی میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں حکومت کی جانب سے مندر کی تعمیر کا سنگ بنیاد رکھتے ہی عوامی اور مذہبی حلقوں میں بے چینی پیدا ہو گئ ہے۔ اس سلسلے میں دو رائے سامنے آرہی ہیں ۔ایک طرف تو نام نہاد  لبرل اور یورپ زدہ پاکستانی جو مندر کی تعمیر کے حق میں ھندوءوں کے شانہ بشانہ بلکہ ان سے بھی دو قدم آگے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور اسلامی تعلیمات اور اقدارکو سر عام پامال کرنےوالا یہی گمراہ ٹولا آج اسلام میں اقلیتوں کے حقوق کا علم سر بلند کرتا نظر آتا ہے  اور دوسری طرف عوام الناس اور مذہبی حلقے ہیں جو مندر کی تعمیر کے مخالف ہیں ۔
کچھ دن پہلے ہی علما کونسل کے چیرمین علامہ طاہر اشرفی نے مندر کی تعمیر کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کے آئین و قانون میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے لہذا ہر اقلیت اور مذہبی فرقے کو اپنی عبادت گاہوں کے سلسلے میں مکمل تحفظ اور آزادی حاصل ہے اور مندر کی تعمیر میں کوئ مذائقہ نہیں ۔
جبکہ چیرمین رویت حلال کمیٹی مفتی منیب الرحمن  نے کھلے الفاظ میں ریاست کےاس اقدام کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ اسلامی ریاست کی ذمہ داری  فقط اقلیتوں کی عبادت گاہوں کا تحفظ ہے نہ کہ نئ عبادت گاہوں کی تعمیر کرنا ہے ۔مزید برآں جامع اشرفیہ لاہور نے فتوی جاری کیا ہے جس میں اسلامی ریاست میں غیر مسلم عبادت گاہوں کی تعمیر کو حرام قرار دیا ہے ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلام کے نام پر اور ریاست مدینہ کا نام استعمال کر کے حاصل کی گئ حکومت مسجدوں سے بڑھ کر مندروں کے تحفظ کی پاسدار کیوں ہے۔ریاست مدینہ میں حاکم وقت یا خلیفہ کی طرف سے کبھی کسی اقلیتی عبادت گاہ کی تعمیر نہیں کی گئ تھی مگر پاکستان میں ریاست مدینہ کا نام صرف حکومت ہتھیانے کے لیے استعمال  کیا گیا ہے اسی لئے اب تک عملی طور پر اسلامی فلاحی ریاست کی کوئ جھلک عوام کی زندگیوں میں نظر نہیں آئ۔ 

1 تبصرہ: