![]() |
جشن آزادی مبارک |
آزادی کا یہ کٹھن سفر خطہ برصغیر میں 1857 کی جنگ آزادی سے شروع ہوتا ہے جو 10 مئی 1857 میں میرٹ کے مقام پر مسلمانوں اور ھندووں نے ملکر برطانوی راج کے خلاف لڑی اور بری طرح شکست کھائی۔اس جنگ آزادی کو انگریزوں نے بغاوت کا نام دیکر برصغیر کے باشندوں سے انتقام لینے کی ٹھانی چونکہ مسلمان برصغیر کے حکمران تھے جن سے اقتدار چھین کر ان کو کچلنا مقصد تھا تو دوسری طرف جنگ آزادی میں مسلمان پیش پیش تھے لہذا اس انتقام کا مسلمان خاص نشانہ بنے ۔اور اس جنگ آزادی کے بعد انگریز کھل کر پورے بر صغیر پر قابض ہو گئے ۔مسلمان انگریزوں سے بری طرح بددل ہوئے اور انگریزی نظام حکومت اور انگریزی تعلیم سے مکمل طور پر کنارہ کش ہو گئے دوسری طرف ہندو انگریزی تعلیم حاصل کر کے سرکاری ملازمتیں اور کاروبار میں اپنا حصہ لینے میں کامیاب ہوگئے ۔
سرسید احمد خان مسلمانوں کے پہلے راہنما تھے جنہوں نے وقت کی ضرورت کو بھانپ لیا اور مسلمانوں کو تعلیم سے بہرہ ور کرنے کے لیے کوشاں ہوگئے۔ سر سید احمد خان کی کوششوں میں سے نمایاں علیگڑھ کالج کی بنیاد تھا جو بعد میں علیگڑھ یونیورسٹی بنا۔سرسید احمد خان نے مسلمانوں کو سیاست سے دور رہنے کی تاکید کی تھی۔لیکن وقت اور حالات نے ثابت کر دیا کہ مسلمانوں کی الگ سیاسی جماعت کی موجودگی ناگزیر ہے ۔
یکم اکتوبر 1906 میں مسلمانوں کا وفد وائسرائے لارڈ منٹو سے ملا اور مسلمانوں اور ہندووں کے جداگانہ انتخابات کا مطالبہ کیا ،وائسرائے نے بہت حوصلہ افزاء باتیں تو کیں مگر اس پر عمل کوئی نہ ہوا۔جس کے بعد دلبرداشتہ ہو کر 1906 میں مسلم لیگ کے نام سے اپنی علیحدہ سیاسی جماعت بنائی۔جس کے پہلے صدر سر آغا خان بنے۔
قائد اعظم محمد علی جناح اپنے سیاسی کرئیر کے آغاز میں کانگریس میں شامل ہوئے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ کانگریس میں ہندووں کی منافقانہ روش کو دیکھتے ہوئے کانگریس سے علیحدگی اختیار کر لی اور مسلم لیگ میں شامل ہو گئے ۔قائد اعظم ہندووں اور مسلمانوں کے مشترکہ سیاسی مفاد اور انگریزوں کے تسلط سے جان چھڑانے کے لیے ہندو مسلم اتحاد کے حامی تھے انہی کی کوششوں سے 1916 میں معائدہ لکھنئو ہوا جس میں کانگریس جداگانہ انتخابات پر راضی ہو گئی، اس دوران جنگ عظیم اول بھی جاری تھی جس میں ترکی کو شکست ہوئی 1919 میں برصغیر کے مسلمانوں نے خلافت اور مقامات مقدسہ کے تحفظ کے لیے تحریک خلافت شروع کی جس میں کانگریس بھی مسلمانوں کے ساتھ شامل ہو ئی لیکن گاندھی نے انگریزوں کی ناراضگی بھانپتے ہوئے تحریک خلافت سے علیحدگی اختیار کر لی نتیجتا اس تحریک کے سارے نقصانات بھی مسلمانوں کو تنہا بھگتنے پڑے۔
بغاوتوں کو کچلنے کے لئے 1919 میں برصغیر میں رولٹ ایکٹ کا نفاذ کیا جاتا ہے جس کے تحت کسی شخص کو بغیر کسی عدالتی کارروائی کے شک و شبہ کی بنا پر قتل کیا جا سکتا تھا ۔اس ظالمانہ ایکٹ کو تاریخ میں black bill-1 کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔اس ایکٹ کے نفاذ کے بعد بغاوت میں اور بھی شدت آگئی۔اور ساتھ ہی انگریزوں کے مظلم بھی زور پکڑ گئے۔
اپریل 1919 میں امرتسر میں جلیانوالہ باغ کے مقام پر ایک جلسے میں اندھادھند فائرنگ کر کے 1200 سے زائد افراد کو قتل کیا گیا۔1919 سے سے 1922 تک انگریز راج کے خلاف تحریک عدم اعتماد چلی اور 1928 میں قائداعظم محمد علی جناح نے برطانوی حکومت کے سامنے اپنے 14 نکات رکھے جس میں الگ سیاسی نمائندگی اور مسلمانوں کے دیگر سیاسی وسماجی حقوق کا مطالبہ کیا گیا ۔
1930 میں علامہ محمد اقبال نے خطبہ آلہ آباد میں مسلمانوں کا الگ وطن برصغیر کے تمام مسائل کا حل قرار دیا ۔اگلے سال گول میز کانفرنس میں دوبارہ مسلمانوں کی الگ ریاست کی بات کی مگر کانگریس اس تقسیم پر تیار نہیں تھی۔
1933 میں چوہدری رحمت علی نے اپنے ایک پمفلٹ Now or Never میں نئی مسلم ریاست کا نام پاکستان تجویز کیا ۔
1937 کے عام انتخابات میں کانگریس 1985 صوبائی نشستوں میں سے 707 جیت لی اور مسلم لیگ صرف 106 نشستیں جیت پائی۔ان انتخابات کے بعد کانگریس نے ہندوستان میں اپنی حکومت بنالی اور مسلمان اپنے سیاسی وسماجی حقوق سے یکسر محروم ہو جاتے ہیں ۔1939 میں کانگریسی وزارتیں ختم ہونے پر مسلم لیگ نے یوم نجات منایا۔
1940 میں مسلم لیگ کا اجلاس لاہور میں ہوا جس میں مولوی فضل الحق نے قرارداد پاکستان پیش کی جو متفقہ طور پر منظور ہوئی۔اسی اجلاس میں قائداعظم نے کہا کہ مسلمان اور ہندو 1200 سال سے برصغیر میں اکٹھے رہنے کے باوجود بھی الگ قومیں ہیں۔یہیں سے دو قومی نظریے کا آغاز ہوا اسکے بعد تحریک پاکستان زور پکڑ گئی مسلمان زور و شور سے الگ وطن کا مطالبہ کرنے لگے مگر سکھ اور ہندو اس تقسیم کی کھلے عام مخالفت کرتے ہیں ۔
1942 میں کرپس مشن ہندوستان آیا مگر گاندھی اور قائداعظم دونوں نے اس مشن کو مسترد کردیا ۔1944 میں ایک معقولیت پسند ہندو راہنما راج گوپال اچاریہ مسلمانوں کے الگ وطن کےمطالبے پر
رضامند ہوجاتے ہیں مگر گاندھی متحدہ وطن پر بضد رہتے ہیں ۔
1945 میں وائسرائے شملہ میں ایک کانفرنس طلب کرتا ہے جس میں ہندو نمائندے کے طور پر جواہر لعل نہرو اور سکھوں کے نمائندے ستارہ سنگھ شامل ہوئے۔مسلمانوں کی نمائندگی قائداعظم محمد علی نے کی۔سکھ اور ہندو راہنما کسی بھی طور الگ وطن کے مطالبے پر راضی نہیں تھے اور قائداعظم مسلمانوں کے الگ وطن کے مطالبے پر سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں ہوئے مزید اس کانفرنس میں مسلم وزراء کی نامزدگی پر بھی اختلاف ہوااور یہ ویول پلان ناکام ہوگیا، کانگریس اور لارڈ ویول اس ناکامی کا ذمہ دار قائداعظم کی ہٹ دھرمی کو قرار دیتے ہیں ۔اس پلان کی ناکامی کے بعد لارڈ ویول عام انتخابات کا اعلان کرتے ہیں جو جداگانہ انتخابات کے فارمولے کے تحت ہونا قرار پائے تھے۔ مرکزی اسمبلی میں مسلمانوں کی 30 نشستیں مختص تھیں مسلم لیگ نے ساری 30 نشستیں اپنے نام کر لیں اور صوبائی اسمبلیوں کی اکثر نشستیں جیت لی ، ان انتخابات نے قائداعظم اور مسلمانوں کے الگ وطن کے مطالبے کی تائید کر دی اور قیام پاکستان کی راہ ہموار کی۔
1946 میں کابینہ مشن پلان برصغیر آیاحکومت سازی میں شریک ہونے کے لیے اس پلان کی تمام شرائط کو ماننا لازم تھا کانگریس نے پلان کی آدھی شرائط مانی اور آدھی مسترد کر دی جبکہ قائداعظم اور مسلم لیگ نے تمام شرائط کو مانا اس کے باوجود بھی حکومت برطانیہ نے منافقانہ روش اپناتے ہوئے خود ہی اس پلان کو منسوخ کر دیا جس سے مسلم لیگ کو بہت مایوسی ہوئی اس کے ردعمل میں مسلم لیگ نے 16 اگست 1946 کو یوم راست اقدام منانے کا اعلان کیا ،جگہ جگہ مظاہرے ہوئے ، مسلمانوں نے انگریزوں کے دیے گئے خطابات واپس کر دیے .لارڈ ویول جب بر صغیر کے سیاسی مسائل کا حل نکالنے میں ناکام ہو گئے تو حکومت برطانیہ نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو وائسرئے بنا کر ہندوستان بھیجا۔20 فروری 1947 میں برطانوی حکومت نے ہندوستان سے برطانوی راج 1948 میں ختم کرنے کا اعلان کیا اس اعلان کے ساتھ ہی ملک بھر میں فسادات کا سلسلہ شروع ہو گیا ۔3 جون 1947 کو لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے تقسیم ہند کا اعلان کیا جس کے تحت پنجاب اور بنگال کی تقسیم کی جانی تھی، تقسیم کی ذمہ داری ریڈکلف کو دی گئی جس نے انتہائی منافقانہ اور غیر منصفانہ تقسیم کی اور نئے ممالک میں وجود میں آنے سے پہلے ہی دشمنی کی بنیاد رکھ دی۔حالانکہ برطانوی حکومت نے 1948 میں ملک کی تقسیم کا اعلان کیا تھا مگر فسادات اور ابتر سیاسی حالات کے پیش نظر 14 اگست 1947 کو ہی آزادی کا اعلان کر دیا گیا اس اعلان کے ساتھ ہی دونوں ملکوں کی طرف لوگوں نے ہجرت شروع کر دی اور اس دوران ظالم اور منافق ھندووں اور سکھوں نے نہتے مسلمانوں کے قتل وغارت کا بازار گرم کر دیا اور 10 لاکھ سے زائد افراد نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ۔اس آزادی کی نعمت کی قیمت ہم نے لاکھوں جانوں کی صورت میں دی ہے۔
ملی نہیں ہے ہمیں ارض پاک تخفے میں
جو لاکھوں دیپ بجھے ہیں تو یہ چراغ جلا
------------------------------------------------------------------
خدا کرے کہ مری ارضِ پاک پہ اُترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھِلے، وہ کھِلا رہے صدیوں
یہاں خِزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
خدا کرے کہ مرے اِک بھی ہم وطن کے لئے
حیات جُرم نہ ہو، زندگی وبال نہ ہو
آمین
رضامند ہوجاتے ہیں مگر گاندھی متحدہ وطن پر بضد رہتے ہیں ۔
1945 میں وائسرائے شملہ میں ایک کانفرنس طلب کرتا ہے جس میں ہندو نمائندے کے طور پر جواہر لعل نہرو اور سکھوں کے نمائندے ستارہ سنگھ شامل ہوئے۔مسلمانوں کی نمائندگی قائداعظم محمد علی نے کی۔سکھ اور ہندو راہنما کسی بھی طور الگ وطن کے مطالبے پر راضی نہیں تھے اور قائداعظم مسلمانوں کے الگ وطن کے مطالبے پر سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں ہوئے مزید اس کانفرنس میں مسلم وزراء کی نامزدگی پر بھی اختلاف ہوااور یہ ویول پلان ناکام ہوگیا، کانگریس اور لارڈ ویول اس ناکامی کا ذمہ دار قائداعظم کی ہٹ دھرمی کو قرار دیتے ہیں ۔اس پلان کی ناکامی کے بعد لارڈ ویول عام انتخابات کا اعلان کرتے ہیں جو جداگانہ انتخابات کے فارمولے کے تحت ہونا قرار پائے تھے۔ مرکزی اسمبلی میں مسلمانوں کی 30 نشستیں مختص تھیں مسلم لیگ نے ساری 30 نشستیں اپنے نام کر لیں اور صوبائی اسمبلیوں کی اکثر نشستیں جیت لی ، ان انتخابات نے قائداعظم اور مسلمانوں کے الگ وطن کے مطالبے کی تائید کر دی اور قیام پاکستان کی راہ ہموار کی۔
1946 میں کابینہ مشن پلان برصغیر آیاحکومت سازی میں شریک ہونے کے لیے اس پلان کی تمام شرائط کو ماننا لازم تھا کانگریس نے پلان کی آدھی شرائط مانی اور آدھی مسترد کر دی جبکہ قائداعظم اور مسلم لیگ نے تمام شرائط کو مانا اس کے باوجود بھی حکومت برطانیہ نے منافقانہ روش اپناتے ہوئے خود ہی اس پلان کو منسوخ کر دیا جس سے مسلم لیگ کو بہت مایوسی ہوئی اس کے ردعمل میں مسلم لیگ نے 16 اگست 1946 کو یوم راست اقدام منانے کا اعلان کیا ،جگہ جگہ مظاہرے ہوئے ، مسلمانوں نے انگریزوں کے دیے گئے خطابات واپس کر دیے .لارڈ ویول جب بر صغیر کے سیاسی مسائل کا حل نکالنے میں ناکام ہو گئے تو حکومت برطانیہ نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو وائسرئے بنا کر ہندوستان بھیجا۔20 فروری 1947 میں برطانوی حکومت نے ہندوستان سے برطانوی راج 1948 میں ختم کرنے کا اعلان کیا اس اعلان کے ساتھ ہی ملک بھر میں فسادات کا سلسلہ شروع ہو گیا ۔3 جون 1947 کو لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے تقسیم ہند کا اعلان کیا جس کے تحت پنجاب اور بنگال کی تقسیم کی جانی تھی، تقسیم کی ذمہ داری ریڈکلف کو دی گئی جس نے انتہائی منافقانہ اور غیر منصفانہ تقسیم کی اور نئے ممالک میں وجود میں آنے سے پہلے ہی دشمنی کی بنیاد رکھ دی۔حالانکہ برطانوی حکومت نے 1948 میں ملک کی تقسیم کا اعلان کیا تھا مگر فسادات اور ابتر سیاسی حالات کے پیش نظر 14 اگست 1947 کو ہی آزادی کا اعلان کر دیا گیا اس اعلان کے ساتھ ہی دونوں ملکوں کی طرف لوگوں نے ہجرت شروع کر دی اور اس دوران ظالم اور منافق ھندووں اور سکھوں نے نہتے مسلمانوں کے قتل وغارت کا بازار گرم کر دیا اور 10 لاکھ سے زائد افراد نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ۔اس آزادی کی نعمت کی قیمت ہم نے لاکھوں جانوں کی صورت میں دی ہے۔
ملی نہیں ہے ہمیں ارض پاک تخفے میں
جو لاکھوں دیپ بجھے ہیں تو یہ چراغ جلا
------------------------------------------------------------------
خدا کرے کہ مری ارضِ پاک پہ اُترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھِلے، وہ کھِلا رہے صدیوں
یہاں خِزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
خدا کرے کہ مرے اِک بھی ہم وطن کے لئے
حیات جُرم نہ ہو، زندگی وبال نہ ہو
آمین
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں